افغانستان میں خواتین نے طالبانی پابندیوں کے خلاف کی بغاوت، گانے کو بنایا ہتھیار - اردو لیٹر

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

Saturday, August 31, 2024

افغانستان میں خواتین نے طالبانی پابندیوں کے خلاف کی بغاوت، گانے کو بنایا ہتھیار

 

افغانستان میں خواتین نے طالبانی پابندیوں کے خلاف کی بغاوت، گانے کو بنایا ہتھیار

افغانستان میں خواتین نے طالبانی پابندیوں کے خلاف کی بغاوت، گانے کو بنایا ہتھیار

انٹرنیشنل : افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے خواتین کے حقوق پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ طالبان نے خواتین کی عوامی زندگی پر کئی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جن میں بولنے، گانے اور عوامی مقامات پراپنا چہرہ دکھانے پر پابندی شامل ہے۔ افغان خواتین اب ان جابرانہ قوانین کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ انہوں نے ایک آن لائن مہم شروع کی ہے، جس کے تحت خواتین گانے گا کر اور اپنی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر کے طالبان کو چیلنج کر رہی ہیں۔ اس مہم میں شامل ایک خاتون نے اپنا چہرہ ڈھانپ کر گانے کی ویڈیو شیئر کی ہے۔

ویڈیو میں موجود خاتون کے گانے کے بول ہیں، ' آپ نے اگلی خبر تک میرے منہ پر چپی کی مہر لگادی ، اگلے اطلاع تک آپ مجھے روٹی اور کھانا نہیں دو گے، آپ نے مجھے عورت ہونے کے جرم میں گھر کے اندر قید کر دیا '۔ ایک اور خاتون نے گاتے ہوئے کہا، "اگر میں موجودنہیں تو آپ (طالبان)کون ہو؟ تمہارے بیچ سچے مرد کہاں ہیں؟اسلامی تعلیمات اور مذہبی متون کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان کو مناسب تعلیم کی ضرورت ہے۔ خواتین آزادی کے بدلے طالبان کے ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ احتجاج اب افغانستان سے نکل کر جنوبی ایشیا اور یورپ کے دیگر حصوں میں پھیل رہا ہے۔ افغانستان سے باہر رہنے والی سینکڑوں افغان خواتین گیت گا کر طالبان کے خلاف اپنا احتجاج درج کروا رہی ہیں۔

ڈاکٹر زہرہ، جو اب جرمنی میں رہتی ہیں، نے بھی اس مہم میں حصہ لیا ہے۔ انہوں نے گانا گا کر کہا کہ اگر یہ میں نہیں ہوں تو تم نہیں  ہو،۔ اس گانے کے ذریعے وہ یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ معاشرے کی تعمیر میں خواتین کی کتنی اہمیت ہے۔ ڈاکٹر زہرہ اس سے قبل افغانستان میں ڈینٹسٹ تھیں۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس نے خواتین کو منظم کیا اور حقوق کے لیے سڑکوں پر مظاہرے کیے لیکن طالبان نے انھیں قید کر دیا۔ اب وہ جرمنی میں رہ کر خواتین سے متحد ہو کر طالبان کے خلاف لڑنے کی اپیل کر رہی ہیں۔

اس کے علاوہ ، مغربی ہرات یونیورسٹی کے ایک سابق لیکچرار نے کہا کہ طالبان ہماری آواز کو دبا نہیں سکتے۔ ہم اس معاشرے کا آدھا حصہ ہیں۔ انہیں ہماری طاقت کا احساس نہیں ہے۔ وہ ہرات میں ایک احتجاجی ریلی نکالنے جا رہی ہیں، جس میں خواتین بھی شرکت کریں گی۔ افغان خواتین کی یہ جدوجہد اب پوری دنیا کے لیے ایک مثال بن رہی ہے اور وہ آواز اٹھانے سے پیچھے نہیں ہٹ رہی ہیں۔


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages